Pages

Thursday, January 31, 2013

زندہ موت



چھوٹے چھوٹے میل رنگے
جابجا تڑکے ہوئے گندے کپوں میں
چائے پینے کا بھی اپنا ہی مزا ہے
دیر تک پکتے ہوئے قہوے کی خوشبو بھی نشہ ہے
اور ڈُنگیا سے  مسلسل
پھینٹتے رہنے کی دل خوش کن صدا
توبہ! بلا ہے
اس پہ شوریدہ فضا میں
سگریٹوں کا ہر طرف پھیلا دھواں
ٹوٹی ہوئی میزوں کی درزوں میں
پناہیں ڈھونڈتی سرگوشیاں
راز و نیازِ زندگی
حالات کی ماری سسکتی مفلسی
فردا سے بے پرواہ دن بھر کی تھکن
محرومیاں، ایماں شکن
مجبوریوں کی گلتی سڑتی میتوں پر
ٹوٹتی نازک امیدوں کے کفن
پھر داؤ پر لگنے سے ڈرتی عزتیں
یا قرض کی سُولی پہ مرتی عزتیں
بیتے ہوئے دن کا عذابِ زندگی
ہر روز رہ جاتا ادھورا ایک بابِ زندگی
چائے کے ان گندے کپوں میں چھوڑ کر
ہر شخص جب گھر جائے گا
تو چڑچڑاتی چارپائیوں پر پڑے
میلے کچیلے بستروں پر
بھوکے جسموں پر گراں کچھ بوجھ کو
بدبو کے بھبکوں میں گرا کر
اک نئی شب کے لیے
پھر بدنصیبی کے تعفن کی رداء
اوڑھے گا اور مر جائے گا !

سالکؔ صدیقی


 جملہ حقوق محفوظ ہیں 


مکمل تحریر >>

نشے سے نشے تک - ایک بے ربط سی تحریر

آپ میرا شمار بھی منشیات کے عادی ان گنے چنے افراد میں کر سکتے ہیں جنہیں وقتی طور پر حالات سے فرار اختیار کرتے ہوئے کسی نشے کی لت پڑ جائے یا پھر وہ قصَداً ایسا کرنے میں ہی عافیت سمجھیں ۔   مجھ پر کسی حد تک دونوں صورتوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک لت جو مجھے کبھی نہ پڑ سکی وہ ہے سگریٹ نوشی اور اس حوالے سے ایک دلچسپ تجربہ کسی اور تحریر تک ادھار رہا ۔

تو بات ہو رہی تھی منشیات کی ۔ اس تحریر کا ہر قاری یقیناً مجھ سے زیادہ تعلیمیافتہ اور صاحب مطالعہ ہونا چاہیئے، اس لیے میں ایک مثبت سوچ کے حامل انسان کی حیثیئت سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ میری بات کو ذرا کھُلے ذہن سے سمجھا جائے گا ۔ اب ضروری نہیں کہ منشیات میں صرف چرس، افیون، ہیروئن، کوکین، شراب یا پھر  کوئی کھانسی کا ایسا سیرپ ہی شامل ہو جس کے بعض اجزاء کی وجہ سے اس کی مقدارِ کثیر نشے کی طلب کو پورا کرتی ہو ۔ کچھ عادات بھی کچھ لوگوں کے لیے نشے کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ، اور ان کا فرداً فرداً یہاں ذکر کرنا ایک طویل مشق کے برابر ہو گا ۔ ان عادات میں سے کم و بیش پوری دنیا میں ایک بہت ہی عام مطالعے کی عادت ہے۔ کم از کم اپنی حد تک تو کہہ سکتا ہوں کہ ابتداء میں شائید تجسس سے بھرپور ضرورت تھی، پھر شوق اور ذوق کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اس درجہ تک جا پہنچی جسے نشے کے سوا کچھ اور نام نہیں دیا سکتا ۔

اس عادت، جنون اور نشے نے کیا کیا گُل کھلائے یہ بھی ایک الگ داستان ہے اور اس کا تفصیلی تذکرہ بھی بشرط زندگی مجھ پر ادھار رہا ۔ ویسے اتنے ادھار خود پر چڑھا کر میں اپنے حق میں بالکل اچھا نہیں کر رہا ہوں، بس دعا ہے کہ اللہ کریم ہر طرح کے ادھار لَوٹانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

تو جناب قارئین، مطالعے کے نشے نے لائبریریوں میں کئی کئی گھنٹے گذارنے کی مشقت کا نعم البدل کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی صورت میں تلاش کر لیا اور 1996ء سےگذشتہ ماہ تک کسی لائیبریری کے قریب تک نہ پھٹکنے دیا ۔ اب سے دو ڈھائی سال قبل ایک نئی علت سے تعارف ہوا جسے بہرحال فیس بک ہی کہنا بہتر ہے کیونکہ اردو ترجمہ کرتے وقت دھیان زیادہ تر لفظ چہرہ یا چہروں پر مرکوز ہو جائے گا اور فیس بک کی موجودہ ہیئت سے توجہ ہٹ جائے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ فیس بک پر کچھ اصلی اور کچھ نقلی چہروں نے بہت سی دلچسپ کہانیوں کو جنم دیا ہے جن میں چند ایک نے مجھے بھی جبراً اپنے تانے بانے میں ایک کردار بنا دیا تھا ۔ ۔ یہ کہانی بھی ادھار رہی ۔

اگرچہ کافی لوگ کھُلے دل سے یہ اقرار کرتے ہیں لیکن میں تو ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ فیس بک بھی انتہا درجے کا نشہ ہے جس کے اثرات سے نہائیت معقول قسم کے احباب بھی بچ نہیں سکے ہیں۔ میں صرف فیس بک کے استعمال کے نشے کی بات کررہا ہوں، اس کی اچھائیاں اور برائیاں فی الحال میرا موضوع نہیں ہے۔ 


میں نے فیس بک کیوں جوائن کیا اور بلاگنگ کیوں، کب اور کیسے شروع کی، اس کا مختصر ذکر چند ایک بار فیس بک اور اپنے بلاگ http://thinksucceeded.blogspot.com پر کر چکا ہوں، مزید تفصیل اپنی کسی کتابی تحریر میں لکھوں گا ۔ ۔ 

کہنا یہ چاہتا ہوں کہ زندگی میں کچھ نشے جیسی عادات سے کامیابی سے چھٹکارا پا لینے کے بعد کئی وجوہات کی بناء پر فیس بک سے دور رہنے کی کوشش میں دوبارہ ایک نہائیت سخت اندرونی معرکے کے بعد لائبریری پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا ہوں ۔ تین سال قبل ایک لائبریری کی ممبرشپ لی تھی لیکن اس دوران صرف ایک ہی بار دو کتابیں میرے نام پر ایشو ہوئیں اور وہ بھی بیٹیوں کے مطالعے کے لیے کیونکہ اسی دوران فیس بک پر ڈرتے ڈرتے اکاؤنٹ بنایا اور آہستہ آہستہ اس کی سحر انگیز جادو نگری میں کہیں کھو گیا ۔

خیر دوبارہ لائبریری کی ممبر شپ کی تجدید کروائی، دو چار بار تین تین چار چار گھنٹے گذارے، دو بار دو دو کتابیں بھی ایشو کروائیں اور یوں فیس بک کے نشے کی اونچی فصیل میں دراڑ ڈالنے کی کوشش میں کامیاب ہوا ۔ اتفاق سے یہ تحریر بھی لائبریری میں ہی بیٹھ کر لکھ رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اپنا اعلان کردہ ناول ''پورا پاگل اور ادھورا آدمی'' بھی زیادہ تر یہیں بیٹھ کر مکمل کر سکوں ۔ آمین

پچھلے چودہ پندرہ سالوں سے انٹر نیٹ کے استعمال کے باعث اور کچھ جنون کی حد تک انگریزی زبان سے محبت کے باعث اردو میں لکھنا لکھانا نہ ہونے کے برابر رہا ، اس لیے نہ تو لکھنے میں پینتیس سال پہلے جیسی روانی ہے اور نہ ہی دن بدن ساتھ چھوڑتی یادداشت کے باعث ذخیرہء الفاظ ساتھ دیتا ہے۔ لہٰذا میری انگریزی اور اردو شاعری کی طرح نثر میں بھی آپ کو ایک طرح کی سادگی اور عام سی سیدھی سادھی زبان کا تاثر ملے گا ۔ اب آپ کو یہ انداز پسند آئے یہ نہ آئے ، یہ تو آپ کو برداشت کرنا پڑے گا۔ میں بہت پر امید ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اگر لکھنا یونہی جاری رہا اور ساتھ ساتھ کچھ مطالعہ بھی تو انشاءاللہ اس انداز میں بہتری ضرور آئے گی لیکن نہ تو میں کسی کا انداز تحریر نقل کرنے کی کوشش کروں گا اور نہ ہی دقیق قسم کے استعارے استعمال میں لاؤں گا ۔  ہاں ذاتی طور پر مجھے بہت شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ اردو کتب کا مطالعہ ترک کر کے، خاص طور پر اردو ادب کا، میں نے خود اپنے ساتھ بہت بڑی خیانت کی ہے۔ لیکن اب بھی پچھتانے کی بجائے تھوڑا بہت کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے جو میں کسی حد تک شروع کر چکا ہوں ۔

بچپن میں کچھ مہربانوں کی جان بوجھ کر لگائی ہوئی اور پچھلے بارہ پندرہ برسوں میں اپنی ہٹ دھرمی کی حد تک سرخ ٹریفک سگنل کراس نہ کرنے کی عادت کے باعث پیچھے سے تیزی سے آتی ہوئی گاڑیوں کی ٹکروں کے سبب لگی چوٹوں سے دماغ کے کچھ حصے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سوچ کر کچھ لکھنے اور تخلیقی تخیئل کو بروئے کار لانے میں بس یوں سمجھ لیجیئے کہ میں اس گاڑی کا ڈرائیور ہوں جسے عام تخلیق کار پانچویں گئیر سے بھی اوپر دوڑا سکتے ہیں لیکن میں آدھے گئیر پر ہی چلا پاتا ہوں۔ کسی ایک موضوع پر ارتکاز کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے لیکن پھر بھی کوشش اور امید ہے کہ لکھنے اور سوچنے کی رفتار کم از کم دوگنی کر سکوں اور اتنا تو لکھ ہی لوں جو برسوں سے لاشعور کی لوح پر محفوظ ہوتا رہا ہے۔

اب اس تحریر کو ہی لے لیجیئے، یہ کوئی چار گھنٹے سے لکھ رہا ہوں، درمیان میں تھوڑا تھوڑا وقفہ دے کر۔ لکھنا کچھ اور چاہ رہا تھا لیکن DESULTORINESSیعنی بے ترتیبی، بے ربطی اور عدم تسلسل نے غلبہ پا لیا ۔ لہٰذا اس کو تو یہیں موقوف کرتا ہوں۔ میرے لیے بلا مبالغہ یہ ایک چھوٹا سا کارنامہ ہے جو انشاءاللہ ناول لکھنے میں بڑی پیش رفت ثابت ہو گا ۔ آپ لوگ بھی یہی سمجھ کر قبول  کر لیجیئے ۔

ویسے ابھی تک تو میں نے سوچا بھی نہیں ہے کہ متذکرہ بالا ناول اور انگریزی زبان میں ایک کتابچے کے علاوہ کیا لکھوں گا۔ کوئی رائٹنگ پارٹنر مل جائے تو شائید کافی کچھ لکھ سکوں لیکن ایسا ساتھی ملنے کی امید اب تو کسی حد تک دم ہی  توڑ گئی ہے جو میری طرح اب تک غیر مطبوعہ ہو، اسے لکھنے کا جنون ہو، چوبیس گھنٹے فارغ ہو میری طرح، دن رات میں کبھی بھی (خصوصاً نصف رات میں) کہیں بھی ملنے کی کال پر دستیاب بھی ہو، بنا چائے پانی کی مدارت کے اور ایک پھٹیچر سی موٹرسائیکل کی سواری پر رضا مند ہو جس کا پٹرول بھی شائید کہیں راستے میں ختم ہو جانے کا ڈر ہو ۔ لیکن جب دھیان خالق کائنات کی طرف جاتا ہے تو تصور میں اس کا ''کُن'' بھی بجلی کی طرح کوندتا اور لپکتا ہے ۔ کیا اس کے ''کُن'' کی تاریں مٹی اور قطرہء غلیظ سے تخلیق کردہ اشرف المخلوقات میں سے  ایک کمترین انسان کی خواہش کی کمزور لہروں سے متحرک ہو سکتی ہیں؟  ۔ ۔ ھٹ دھرم مثبت سوچ یعنی STUBBORN POSITIVE THINKINGکا جواب تو ہاں میں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر وہ حدیث قدسی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ''میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں'' ۔ لیکن شیطان بھی تو ایسے ہی مواقع کی تاک میں رہتا ہے۔ وہ دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ نادان انسان، تیرا گمان تو کئی بار غلط ثابت ہوا، تیری کئی دعاؤں کا کچھ صلہ نہیں ملا، تیرے اندھیروں اور تنہائی میں بہنے والے کتنے ہی آنسو محض کپڑوں میں جذب بدبودار پسینے میں تحلیل ہو گئے، تیرے یقین کی دھجیاں بکھر گئیں اور تُو ابھی تک خوش گمانی کی ادرک، الائچی و دارچینی والی چائے کی مہک سے خود کو بہلا رہا ہے؟

صاحبو! سوچنے والے بندے کے لیے کیا میدان جنگ سجا دیا ہے خالق و مالک ازل و ابد نے کہ کٹھ پتلیوں کو بناتا بھی خود ہے، نچاتا بھی ہے اور محظوظ بھی خود ہی ہوتا رہتا ہے اور جو پتلی اس کے دھاگوں کی حرکت سے ذرا سی بھی ادھر ادھر ہونا چاہے اسے پکڑ کر زمین پر رگڑا لگا دیتا ہے، سرزنش بھی کرتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے پیار بھی کرتا ہے جس کی حدت سے پتلی کی ساکت اور کانچ کی آنکھوں سے آب تشکر کے قطرے بھی بہنے لگتے ہیں اور پھر خوش گمانیوں کا موسم لَوٹ آتا ہے، میں بھی اکثر انہی موسموں کے نشے میں رہتا ہوں اور یہ بھی میرے کریم کا بڑا احسان ہےورنہ اس نشے سے محروم بے شمار لوگوں کی لاشیں یا تو پنکھوں سے لٹکی ہوئی ملتی ہیں ، یا ریلوے لائنوں پر ٹکڑے ٹکڑے اور یا پھر کن پٹیوں میں سوراخ زدہ ۔ یا رب کریم تیرا شکر ہے تو نے دنیاوی نشوں کے عادی کو اپنی رحمت کے حوالے سے ایک خوش گمانی کا نشہ بھی عطا کیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔

            بات کس نشے سے کہاں تک جا پہنچی  لیکن مجھے خوشی ہے کہ ایک بے ربط اور مبہم تحریر کا انجام میری توقع کے برخلاف اچھی سمت میں ہوا ۔ سو اب تو  اسے یہیں ختم کرنا واجب ہو گیا ہے اور جاتے جاتے ایک نوجوان شاعر جناب شہزاد نیر کی کتاب ' 'برفاب'' کی پہلی نظم '' اعترافیہ'' کا کچھ حصہ ان کی اجازت کے بغیر شیئر کرنا چاہوں گا ۔ ۔ یہ کتاب کل ہی لائبریری کی نئی کتب میں نظر آئی تھی اور میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک طرح کی علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے اسے نئی کتب کے ہی شیلف میں اپنی مرضی کی جگہ پر کتابوں کے درمیان رکھ دیا تھا تاکہ آج یہ مجھے آسانی سے مل جائے اور ایسا ہی ہوا ۔ ۔ ۔

اعترافیہ

ہمارا دیکھنا کیا ہے
نظر ٹِکنے نہیں پاتی
کہ ہر منظر بدلتا ہے
اگر منظر ٹھہر جائےتو آنکھیں وہ نہیں رہتیں
نگاہیں ریت ہیں
آنکھوں کی مٹھی سے پھسلتی ہیں
یہاں ہر نقش عمر یک نَفَس تک ہے
لپکتی آنکھ کے چھونے سے پہلے
کس جگہ روپوش ہوتا ہے
نگہ کو فرصتیں کب ہیں
حقیقت اس قدَر ہے
درحقیقت کچھ نہیں
باقی فسانہ ہے
فسانہ ، جو کسی دل پر
ہمیں لکھنا نہیں آتا!

مآخذ ۔ برفاف از شہزاد نیر

سالک ؔ صدیقی


                    









 




جملہ حقوق محفوظ ہیں 

مکمل تحریر >>

مری لکھنے کی خواہش

مری لکھنے کی خواہش کو
حقیقت کی سنہری روشنائی سے
ہمیشہ کے لیے
لفظوں کے زندہ پیرہن پر ثبت کرنے کو
قلم بے تاب رہتا ہے
کبھی اپنی کتابِ زندگی بھی،  لائبریری میں
 کسی کے خوبصورت ہاتھ تھامی دیکھنے کا منتظر
اک خواب رہتا ہے
مگر اک المیہ بھی ہے
کہ مجھ سے، سوچ کر مرضی سے کچھ لکھا نہیں جاتا
تخیئل کی پنیری سے
کسی تحریر کی حدِ نظر تک
لہلہلاتی فصل پکنے تک
مزاج و کیفیت کے 
  ان گِنَت موسم بدلتے ہیں
مرے وجدان کی پہنائیوں میں
اضطرابی سوچ کے دریا ابلتے ہیں
میں پھر بھی لکھ نہیں پاتا
مجھے کیاپھر کسی مکتب میں سالکؔ
ارتقائے آگہی کا جبر سہنا ہے
وگرنہ ذوقِ آوارہ کو
بے منزل ہی رہنا ہے؟

سالکؔ صدیقی

لائبریری میں بیٹھے ہوئے لکھی گئی
        

    جملہ حقوق محفوظ ہیں



مکمل تحریر >>

Tuesday, January 29, 2013

پھیلتی کائنات کے مالک



پھیلتی کائنات کے مالک

بجھتی امیدوں کو

اپنے نور سے روشن رکھنے والے

سینوں کو زرخیز بنانے والے

فکر تازہ کی پاکیزہ فصل اگانے والے

کالے اور کٹھور پہاڑوں کے دامن میں

رنگ برنگے پھول اگانا سمجھ میں آیا

پتھر میں بند کیڑے کو

اس کا رزق مقسوم کھلانا سمجھ میں آیا

بیچ سمندر نادیدہ حد تقسیم بھی سمجھ میں آئی

ناموجود سے ہر موجود بنانے والے

تیرے ہر اک کام میں حکمت

لیکن تیرے کُن کی حد، کیا ختم ہوئی؟

کہ وہ سب پنچھی، جن کو اک آزاد افق

بے سمت فضا کی خواہش تھی

اب پورے پروں کے ہوتے ہوئے بھی

اڑنے سے قاصر بیٹھے ہیں

تیرے کُن کی آس پہ

صبح و شام فلک تکتے رہتے ہیں



سالکؔ صدیقی
جملہ حقوق محفوظ ہیں
مکمل تحریر >>