Pages

Monday, August 19, 2013

26 October, 2012

خود کلامی بھی گناہ

رات گئے جب
سب آوازیں بند ہوئیں
اور چاند کہیں آغوش مغرب میں اترا
سوچا، کچھ اپنے آپ سے باتیں کی جائیں
لب بستہ، آنکھیں بند کیے
بس دل پر ذرا توجہ کی
سناٹا چیخ پڑا
اوپاگل، او گستاخ
جا کر سو جا
ہمیں تو بے آرام نہ کر!
مکمل تحریر >>

22 November, 2013


تازہ بہ تازہ ۔ ۔ ۔ محترمہ Riffat Murtaza کی ٹائم لائن تصویر دیکھ کر ایک خصوصی کیفیت میں لکھی گئی ۔ ۔ ۔

دور تک پھیلا
گذرتے وقت کا نیلا سمندر
آخر شب
اُف، کہیں نہ ٹھہرتی تنہائیوں کے دائرے
سوچ کی بے سمت لہریں
لمحہ لمحہ رینگتے
خاموش ساگر میں اترنا چاہتی ہیں
اور تشنہ خواہشوں کے ساحلوں پر
خوش گمانی کی ہواؤں کے جلو میں
ہر طرف کھُل کر بکھرنا چاہتی ہیں
آسماں کا آخری روشن ستارہ
صبح کاذب سے خفا
میری پلک پر آ کھڑا ہے
دور تک پھیلا سمندر
سوچ کی لہریں
ستارہ
جانے یہ سب راز کیا ہے!
مکمل تحریر >>

27-11-2012


جدید اقدار کے دھارے میں
کیوں نہ میں بھی بہہ جاؤں
وگرنہ صبح مرنا، شام جینا
لمحہ لمحہ بے بسی کا زہر پینا
آخری سانسوں تلک
چپ چاپ سہہ جاؤں
مکمل تحریر >>

04 December, 2012


محبت! ۔ تم کہاں ہو
عمر بھی کی تشنگی
اب تم سے ہم آغوش ہونا چاھتی ہے
شرابِ وصل پی کر، زندگانی
ہوش کھونا چاھتی ہے
حقوق محفوظ ہیں
مکمل تحریر >>

30 December, 2013


عمر تو
سات ہو
یا ستاون
کوئی فرق نہیں پڑتا
یوں نقطوں اور لکیروں میں
حیرت سے گم ہو جانا
انہونی کا کھوج لگانے کی کوشش میں
گہری سوچ کی چوکھٹ پر
بیٹھے بیٹھے سو جانا
بے معنی سا کھیل نہیں
یہ ایک طویل سفر ہے
اندر کی دنیا کا
تم کیا جانو!
مکمل تحریر >>

23 january 2013


کچے رستے پہ دور تک اب بھی
دھند پھیلی ہے بے یقینی کی
جانے کس کی تلاش میں گرداں
اک مسافر کہ بے سر و ساماں
خوش گمانی کی شال میں لپٹا
ایک موہوم سی امید لیے
چلتا جاتا ہے اور سوچتا ہے
دھند کے پار کیا کوئی اب بھی
تازہ نیلا گلاب تھامے ہوئے
شوق سے میرا منتظر ہو گا ؟
مکمل تحریر >>

11 February, 2013


جانے کس جھوٹ کی سزا ہے مجھے
سچ کی سُولی چڑھا دیا ہے مجھے

ہر قدم پر ہے جنگ کا میداں
اور خود سے بھڑا دیا ہے مجھے

قفلِ خاموشی دینے والے نے
کتنا منہ پھٹ بنا دیا ہے مجھے

آبگینے بھی میرے سنگ، رقصاں
ساقیا، کیا پلا دیا ہے مجھے

دل محبت سے آشنا کر کے
جینا تنہائی کا دیا ہے مجھے

لوحِ تقدیر لکھ کے کاتب نے
سوچتا بُت بنا دیا ہے مجھے

ممتحن مہربان ہے لیکن
پرچہ حد سے کڑا دیا ہے مجھے

گو توازن بھی سوچ میں ہے مگر
خون جو کھَولتا دیا ہے مجھے

صبر کے سائباں تلے سالک
سینہ پھٹتا ہوا دیا ہے مجھے
مکمل تحریر >>

15-03-2013


پرانے جوتوں کے ریشے ریشے پہ
جانے کتنی مسافتوں کی کتھا لکھی ہے
نہ جانے کن منزلوں کو پانے کی
بھیگے سجدوں میں مانگی اک اک دعا لکھی ہے
نہ جانے کیا سنگ میل تھے
جن کی گرد ان میں رچی ہوئی ہے
نہ جانے کتنے کڑے سفر تھے
کہ جن سے مجروح پاؤں پر
جم گئے لہو کی بساند استر میں رہ گئی ہے
مسافرِ بے تھکان کے جسم کے پسینے کا قطرہ قطرہ
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کی پیاس اب بھی بجھا رہا ہے
کہیں کوئی جیسے دشتِ امید سے پرے منتظر کھڑا ہے
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کو
نامکمل سفر کی تکمیل کا جنوں ہے
مسافرِ بے تھکان تو سرد مہر کیوں ہے؟
مکمل تحریر >>

Sunday, August 18, 2013

16 March, 2013


درد کے لمحات میں
چھپ چھپ کے اس کا دیکھنا،خاموش رہنا
اور پھر اشکوں کے ساون کی گھٹائیں
ٹوٹ کر، کھُل کر برس جانے کے بعد
پُشت پر آھستگی سے ہاتھ رکھ کر، صرف یہ کہنا
' چلو اٹھو، ذرا سی چہل قدمی سے طبیعت بہل جائے گی '
نہ جانے کیوں ہمیشہ حوصلہ دیتا رہا ہے
کیا ہوا جو آج کل وہ بے وجہ روٹھا ہوا ہے
درد کے لمحات پر بھی قحط سا اترا ہوا ہے !
مکمل تحریر >>

18 March, 2013


دن گذر جاتا ہے سو کاموں میں
رات بھر رات نہیں ہوتی ہے

ایسی تنہائی کہ توبہ، سالک
خود سے بھی بات نہیں ہوتی ہے
مکمل تحریر >>

18-03-2013


صورتِ اشک جو اک قطرہ سا
چشمِ گریہ سے گرا کرتا ہے
آتشِ درد میں
جل بجھتے ہیں تن من، سالک
تب کہیں گوہرِ نایاب بنا کرتا ہے
مکمل تحریر >>

25 March, 2013


صرف محروم ہی رکھنا ہے تو پتھر کر دے
یا محبت کی کوئی عمر مقرر کر دے

میں ہوں مخلوق، مرا ظرفِ طلب بھی محدود
تُو مرا رب ہے، کبھی حسبِ عطا، بھر کر دے
مکمل تحریر >>

07 April, 2013


ان ہاتھوں سے
قلم، کتابیں چھیننے والو
بولو
منکر اور نکیر سے کب چھینو گے؟
مکمل تحریر >>

07 April, 2013


مرے جسم و جاں کی توانائیوں سے
تم اپنی ہوس کے محلات تعمیر کرتے رہو
بس مری مسکراہٹ
مرے خشک ہونٹوں کی زینت نہ چھینو
تکبر کے دوزخ میں جلتے کمینو!
مکمل تحریر >>

10 April, 2013


تکلفات کی حد سے پرے، ملو تو سہی
کنارِ خواب، کبھی شب گئے، ملو تو سہی

سمیٹ لیں گے تمہارے وجود کی سمتیں
خود اپنے کھوج میں بھٹکے ہوئے، ملو تو سہی
مکمل تحریر >>

13 April, 2013


زمینی فاصلوں کے اُس طرف
دشتِ تحَیُر کے مسافر
رات کے پچھلے پہر تک
جانے کس کے کھوج میں
خاموش جگتے ہیں
بہت اپنے سے لگتے ہیں
مکمل تحریر >>

22 April, 2013

مرے وجود میں محصور ہے زمانوں سے
جو کائنات کی تسخیر کرنا چاہتا ہے

کسی اندھیری سی شب میں پلک جھپکتے ہی
وہ کہکشاؤں سے آگے گذرنا چاہتا ہے
مکمل تحریر >>

23-04-2013

سینے کا ہر گھاؤ
جلتا سورج
پھر بھی
کیوں نہیں ڈھلتی سالک
اپنے اندر رات
شائید مجھ سے باتیں کرنے
ٹھہر گئے ہیں
کشتی، چاند، سمندر رات
مکمل تحریر >>

01-05-2013

یاد رکھیں گے ایک کہانی، کافی، دیا، گلاب
وقتِ ہجر کی خاص نشانی، کافی، دیا، گلاب

ساکت لمحے، بھیگی پلکیں، اور لرزتے ہونٹ
اور گواہ تھے ، شام سہانی، کافی، دیا گلاب
مکمل تحریر >>

05-05-2013

تری رہ میں
اب بھی کھڑا ہے
اک ترا منتظر
کوئی خوش گماں
کبھی تو بھی
راستہ بھول کر
ذرا لَوٹ آ
مرے مہرباں
کہ سفر کی لمبی مسافتیں
وہی ڈھونڈتی ہیں رفاقتیں
کسی موڑ پر جو نہیں رہیں
وہیں اک انا کے مزار پر
ترا منتظر
ابھی ہے کھڑا
کئی سخت بازیاں ہار کر
تری راہ میں
تری چاہ میں!
مکمل تحریر >>

17-05-2013


درد حد سے گذرنا ٹھہرا ہے
یہ بھی دریا اترنا ٹھہرا ہے

کس کی یادوں کے داغ جل اُٹھے
اک جہاں راکھ کرنا ٹھہرا ہے

سالک صدیقی
01:35 ۔ ۔ ۔ ۔ 17-05-
مکمل تحریر >>

چُپ منظر


دور تک پھیلا ہوا چُپ منظر
پچھلے پچاس برس کا ماضی
ایک مدت سے پڑی ساکت و حیراں کرسی
آکسیجن کو ترستی ہوئی کمرے کی فضاء
ماضی و حال کی سرحد پہ کھڑی تنہائی
اور اک دل جو محبت کے خزانوں پہ ہے مامور
سبھی
جانے کس خضر کی رہ تکتے ہیں
جو انہیں لمحہء موجود میں یکجا کر دے
عقلِ حیران کی تسکیں کو تماشا کر دے
خالقِ کُل، میں تجھے تیری قسم دوں کہ نہ دوں
ایک ساعت کے لئے ہی مجھے موسٰی کر دے!

سالک صدیقی
19:30 ۔ ۔ ۔ ۔ 17-05-2013
مکمل تحریر >>

Thursday, February 7, 2013

عشق کے الاؤ میں ۔ ۔ ۔

جملہ حقوق محفوظ ہیں
مکمل تحریر >>

Tuesday, February 5, 2013

تم بھی اک سمت ہو

جانے کس کھوج میں

ایک بارِ تجسس سنبھالے ہوئے

بے نشاں سنگ میلوں پہ ٹھہرے بنا

سوچ کے کتنے بے سمت صحراؤں کو

خوش گمانی کے بے آ ب دریاؤں کو

اپنی دھُن میں مگن پار کرتا رہا

اور ادھر کاروانِ زمانہ بھی چپ چاپ

مجھ میں سے ہو کر گذرتا رہا

تب یہ عُقدہ کھُلا

میں ہی خود سمت ہوں

تم بھی اک سمت ہو

وسعتوں اور حدوں سے کہیں ماوراء

 دشتِ بے انت ہو

اپنے ہی کھوج میں

ایک بارِ تجسس اٹھائے ہوئے

روح کی وادیوں کا سفر تو کرو

خاکِ بے قدر کی مثل

حالات کی آندھیوں میں  نہ آوارہ اُڑتے پھرو!

سالکؔ صدیقی


جملہ حقوق محفوظ ہیں
مکمل تحریر >>

Monday, February 4, 2013

کبھی تو شائید ۔ ۔ ۔ 1990 میں لکھی گئی


کبھی تو کوئی لکھے گا

اک داستانِ عبرت

شقاوتوں کے ہمیشہ رِستے

سلگتے زخموں سےقطرہ قطرہ ٹپکتے

 تازہ لہو میں نوکِ قلم ڈبو کے

کبھی شکستِ جنوں، کبھی وحشتوں کے قصے

اذیتوں کی چِتا میں جلتے لطیف جذبات کی کہانی

مری مقفل خموشیوں کے شکستہ اوراق پر لکھے

درد کے فسانے

مگر یہ توفیق کس کو ہو گی

کہ میرے لب تو کبھی کے

 خود میرے ہی مقدر نےسی دیئے ہیں

یہ پھر بھی طے ہےکہ اک نہ اک دن

کبھی تو شائید، کوئی لکھے گا

اذیتوں کے جلے کفن پر مری کہانی!



سالکؔ صدیقی

 
جملہ حقوق محفوظ ہیں



مکمل تحریر >>

Sunday, February 3, 2013

اب شاد ہو تم؟

تمہاری ذات  سے وابستہ
سارے موسموں کو
آخری ہجرت پہ راضی کر لیا ہے
محبت کو تقدس سے جدا کر کے
یہ دعویٰ صرف رسمی کر لیا ہے
جاؤ ہر اک یاد سے آزاد ہو تم
جب کبھی فرصت ملے
تو صرف اک پیغام لکھ دینا
کہ ہاں، اب شاد ہو تم
شاد ہو تم؟ 

سالکؔ صدیقی


ایک بہت پیارے دوست کے لیے جو شائید یہ کبھی نہیں پڑھے گا ۔ ۔ ۔ ۔ 
دلی دعا ہے کہ جہاں رہے بس خوش اور شاد و آباد رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آمین  

جملہ حقوق محفوظ ہیں


مکمل تحریر >>

ایک بابے سے ملیئے

            جب سے بابا اشفاق رحمۃ اللہ علیہ نے بابوں کے وجود ، حیثیئت اور ان کے اندازِ فکر و عمل کا کشف المحجوب کیا ہے، لوگ پیروں مرشدوں سے زیادہ بابوں کی تلاش میں لگ گئے ہیں ۔ حتٰی کہ میں ایسے احباب کو بھی جانتا ہوں جو تصوف، بیعت اور روحانیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے لیکن نہ صرف بابوں کی باتوں کا اپنی تحریروں اور گفتگو میں حوالہ دیتے نظر آتے ہیں بلکہ چپکے چپکے اس ٹوہ میں بھی رہتے ہیں کہ کاش کہیں کوئی بابا ہی مل جائے ۔
           
            اب کوئی لاکھ اعتراض کرے کہ فیس بک ایک یہودی نوجوان کی تخلیق ہے لیکن اس کے ذریعے کچھ موضوعات پر جتنی معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے شائید ہمارے ملک میں کتابوں کے ذریعے نہیں ہوا ۔ اشفاق احمد صاحب مرحوم و مغفور ہی کی زاویہ اور پھر بابوں کا جتنا تذکرہ فیس بک پر ہے اور کہیں ملے گا ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ گمراہ قسم کے لوگ بھی فیس بک کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کر رہے ہیں، لیکن یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے۔


            یوں تو مجھ جیسے ناہنجار کو بھی، جس کی ریش مبارک میں سر کے بالوں کی نسبت چار گنا سفیدی وقت سے کچھ پہلے ہی اتر آئی ہے، کچھ نوجوان اور بچے احترام سے بابا کہہ دیتے ہیں لیکن اس بات سے قطع نظر ایک بات جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ جو بندہ نیت کرکے بابوں کی تلاش میں نکلتا ہے اسے عموماً مایوسی ہی ہوتی ہے اور شائید کسی روحانی فریکوئینسی کا کچھ چکر ہے کہ جب تک وہ میچ نہیں ہوتی آپ کو مطلوبہ بابا نہیں ملتا ۔ اور لوگ تو تھوڑے ہی عرصہ میں اس بابوں کے تصور سے بدظن بھی ہو جاتے ہیں اور اس کار خیر میں جعلی بابوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ 



            ایک بات آپ کو بتاتا چلوں کہ میں نے پرانے وقتوں کے اولیائے کرام کے تو کافی تذکرے پڑھے ہیں اٹھارہ سے بائیس سال کی عمر میں، لیکن حیرت انگیز طور پر جناب اشفاق احمد کی کسی بھی تحریر کے دو صفحات تک نہیں پڑھ پایا آج تک، باوجود اس کے کہ میں نے فیس بک پرجتنے حوالے پڑھے ہیں ان سے مجھے کم و بیش سو فیصد اتفاق رہا ہے۔ یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ شائید میں کوئی ایسی بات لکھ جاؤں جو ان کی کسی تحریر میں پہلے سے موجود ہو، اور یہ اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کہ کائنات کی بسیط فضاؤں میں ہر لمحہ گردش کرنے والی معلومات کی لہریں کسی بھی انسان کا متحرک اور حالت قبولیت میں کام کرتا دماغ موصول کر سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ دنیا کے دو مختلف دور دراز علاقوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک ہی طرح کی بات سوچ رہے ہوں ، ایک ہی فارمولہ تخلیق کر رہے ہوں یا ایک ہی راز کائنات دریافت کر رہے ہوں۔

            میرے ناقص فہم کے مطابق یہ فریکوئینسی ہمارے تفکر اور اعمال کے مطابق بدلتی رہتی ہے بلکہ غالباً فریکوئینسی پہلے کام کرتی ہے اور ہم عملی زندگی میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ بعد میں وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ یہ بات تو برسوں پہلے ثابت ہو چکی کہ ہمارے دماغ میں پیدا ہونے والا معمولی سے معمولی خیال بھی توانائی کا ایک یونٹ ہے اور فزکس کے طلباء جانتے ہیں کہ توانائی immortalہوتی ہے۔ کم از کم قیامت تک تو ایسی ہی صورت حال ہوگی، اس کے بعد خالق کائنات اس کو باقی رکھتا ہے موجودہ شکل میں یا اس کی ہیئت بدل دیتا ہے یا بالکل ختم کرکے نئی قسم کی توانائی تخلیق کرتا ہے، یہ وہی بہتر جانتا ہے۔

            تو میرا مؤقف یہ ہے کہ ہر شخص کے روحانی وجود میں مختلف قسم کی فریکوئینسیاں کام کر رہی ہوتی ہیں اور جس طرح ایک خاص نمبر کے نٹ بولٹ ایک دوسرے کے ساتھ فِٹ ہو جاتے ہیں اسی طرح زندگی میں ہماری انڈرسٹینڈنگ، پر خلوص تعلق اور پیار محبت کے رشتے صرف انہی لوگوں سے پروان چڑھتے ہیں جن کے ان جذبات کی فریکوئینسیاں ہمارے ساتھ میچ کر جائیں اور جن کی ہم سے مختلف ہوتی ہیں ان میں سے اکثر سے تو ہماری ملاقات ہی نہیں ہوتی اور جو مل جائیں تو ان سے مثبت جذبات کے رشتے نہیں بنتے۔

            ابھی ابھی ذہن میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بعض افراد کی فریکوئینسیاں یونیورسل بھی ہوتی ہیں اور ان میں اتنی زیادہ مقناطیسیت ہوتی ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں مختلف فریکوئینسیاں رکھنے والے لوگوں کو بھی یکجا کر دیتی ہیں۔ جیسے کسی بھی مشینری کے ڈھانچے میں استعمال ہونے والے پیچ اور نٹ بولٹ صرف ایک ہی نمبر کے نہیں ہوتے لیکن وہ مشینری کا متحرک اور اہم حصہ ہوتے ہیں۔

            یہ یونیورسل فریکوئینسیاں اللہ کریم نے اپنے پیغمبروں اور نبیوں کو عطا کی ہیں اور عقائد کی صورت میں درجہ بدرجہ نیچے کی طرف منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ اس کی ایک عام سی مثال آسمانی مذاہب ہیں جن پر ان کے ماننے والے صدیوں بعد تک عمل کرتے رہتے ہیں اور اسلام کی صورت میں تو قیامت تک کرتے رہیں گے۔ آپ خود بھی اس تجربے سے گذرے ہوں گے کہ جب کبھی بھی  آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جاتا ہے تو کیسے دل و دماغ اور روح و بدن میں ایک بہت ہی خاص قسم کے کرنٹ کی لہریں دوڑتی محسوس ہوتی ہیں اورایسا صرف ذاکر ، خطیب یا نعت خواں حضرات کی آواز اور الفاظ میں متحرک توانائی کی لہروں کے ذریعے ہوتا ہے ورنہ کوئی مادی واسطہ تو درمیان میں نہیں ہوتا ۔ اب جس مسلمان کی فریکوئینسی جتنی زیادہ مثبت اور یقین و اعتقاد سے پُر ہو گی اتنا ہی اس کے اندر توانائی کی لہریں زیادہ گردش کر رہی ہوں گی ۔ 

            اس سے ذرا نیچے آئیں تو بعض لوگ بحیثیئت ولی اللہ، عالم، خطیب، روحانی ہادی، استاد یا بابا کے ایسے ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں جن کی بے شمار فریکوئینسیاں شائید آپس میں نہ ملتی ہوں۔ پھر سیاسی لوگ ایک خاص نظرئیے کی فریکوئینسی کے سبب ہزار قسم کے ذاتی اختلافات کے باوجود ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ایک ہی نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ منفی اور مجرمانہ سوچ کے حامل افراد کی بھی ایک خاص قسم کی فریکوئینسی ہوتی ہے جو کہ گروہوں اور مافیا کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ الغرض فریکوئینسی تو ضرور ہے اور اس کا بنیادی مآخذ انسانی سوچ، عقیدہ اور یقین ہے۔

            میں عرض کر رہا تھا کہ ہر متلاشی کو مطلوبہ بابا نہیں ملتا اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ممکن ہے کہ تلاش کرنے والے کی خواہش تو ہو لیکن اس کا یقین متزلزل ہو اور اس نے اپنا روحانی رسیور آن ہی نہ رکھا ہو یا پھر اس کے اندر کوئی ایسی بہت ہی طاقتور منفی فریکوئنسی کام کر رہی ہو جو مثبت کو رد کر رہی ہو ۔ اب یہ تو ہر انسان پر ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی منفی سوچ کی فریکوئینسی کو تلاش کرے اور اسے مثبت سوچ سے بدلنے کی کوشش بھی کرے ۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہر شخص اپنی ذات اور اپنے کردار کا بے رحمانہ آپریشن کرنے پر تُل جائے اور اس بات کا پرچار کیے بغیر ہر منفی پہلو کو ایک ایک کرکے انا کے کفن میں لپیٹ کر ہمیشہ کے لیے دفن کر دے۔ اور جو ایسا کر پائے تو سمجھو کہ وہ خود ہی بابا بن گیا، پھر رہ کیا گیا پیچھے؟ 

            اور میرے نزدیک آج کے دور میں سب بابے لمبی لمبی داڑھیوں ، بڑے بڑے عماموں، پیشانیوں پر کالے داغوں، ہاتھوں میں ہر وقت تسبیحوں والے یا صبح و شام صرف اللہ اللہ کرنے والے ہی نہیں ہوتے۔ بابا سوٹڈ بوٹد، کافی کی چسکیاں لیتا، شائید سگریٹ یا سگار بھی پیتا، ٹی وی دیکھتا، والی بال کھیلتا، ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے گاڑی دوڑاتا، موسیقی سے لطف اندوز ہوتا، ڈیجیٹل کیمرے سے تصویریں کھینچتا، فیس بک پر با مقصد گپیں لگاتا، مکڈونلڈ کا برگر کھاتا، چمن آئس کریم کے مزے لیتااور روزانہ کلین شیو کر کے بہترین خوشبو استعمال کرنے والا بھی ہو سکتا ہے ۔

            میں قسم نہیں کھاتا لیکن یقین رکھتا ہوں کہ آپ کے اندر بھی ایک بابا ضرور چھپا ہوا ہے ، اسے دریافت کرنے کے لیے اپنی کچھ فریکوئینسیاں تبدیل کرنے کا پختہ ارادہ تو کیجیئے، پھر دیکھیئے کسی دن وہ یکدم آپ کے سامنے آ کھڑا ہو گا لیکن آپ اسے خود سے پہچان نہیں پائیں گے، لوگوں کے ذریعے آپ تک خبر پہنچ جائے گی۔

            بابا کسی بھی رنگ و نسل یا خطے کا ہو اس میں دو طرح کی طرز فکر ضرور ہوتی ہے۔ اول یہ کہ وہ اپنی سوچ میں ہر وقت اللہ کریم سے جُڑا رہتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ  رات دن سجدے میں پڑا رہے یا ہر وقت تسبیح ہی گھماتا رہے، ہاں اس کا دل اکثر سربسجود رہتا ہے اور وہ ہر اچھی بری بات کو اللہ کریم کی ذات کے چشمے سے دیکھتا ہے۔ دوم یہ کہ وہ عام لوگوں کے علاوہ ان کی بھلائی کا بھی خواہشمند ہوتا  اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہتا ہے جن سے اسے کسی بھی طرح کی تکلیف پہنچی ہو اور یہ طرز فکر اختیار کرنے کے لیے کوہ ہمالہ سے بھی اونچا اور بڑا ایک بُت توڑنا پڑتا ہے جسے انا کہتے ہیں۔ یہ بُت پاش پاش کیے بغیر آپ کے اندر کا بابا کبھی آزاد نہیں ہو سکتا ۔

تو پھر کیا خیال ہے حضور، سنبھالیے قوتِ ارادی اور یقین محکم کا قوی الجثہ ہتھوڑا اور لگ جائیے اس بُت کو ریزہ ریزہ کرنے میں ۔ ایک بار آپ نے یہ کام شروع کر دیا نا تو دیکھیئے گا آپ کے ارد گرد گھومتے کئی بابے آپ کی مدد کو آ جائیں گے چپ چاپ، جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کیسے کیسے آپ کی انا کا بُت توڑنے میں آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ 

            میں تو خیر ہرگز نہیں، البتہ یہ تحریر شائید آپ کے لیے ایک کم تر درجے کا بابا ہی ثابت ہو اور خود آپ کا کوئی عمل، کوئی بات، کوئی فقرہ یا کوئی لفظ بھی کسی کے لیے اس درجے کا بابا ہو سکتا ہے۔ سچ کہہ رہا ہوں بابا آپ کے پیچھے ہی کھڑا ہے لیکن آپ کچھ اور ہی تماشا دیکھنے میں محو ہیں جس نے وقتی طور پر آپ کی پوری توجہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ۔ سوچیئے اور اپنے اندر کے بابے سے ملیئے جو آپ کے من کی چوکھٹ پر نہ جانے کب سےآپ کے اندر فریکوئینسی کی تبدیلی اور آپ کی بھرپور توجہ کا منتظر ہے!


فصیلِ جسم سے باہر نکل کے دیکھ کبھی

نظر کا زاویہ یوں بھی بدل کے دیکھ کبھی



سالکؔ صدیقی

     
جملہ حقوق محفوظ ہیں                 





















مکمل تحریر >>

Thursday, January 31, 2013

زندہ موت



چھوٹے چھوٹے میل رنگے
جابجا تڑکے ہوئے گندے کپوں میں
چائے پینے کا بھی اپنا ہی مزا ہے
دیر تک پکتے ہوئے قہوے کی خوشبو بھی نشہ ہے
اور ڈُنگیا سے  مسلسل
پھینٹتے رہنے کی دل خوش کن صدا
توبہ! بلا ہے
اس پہ شوریدہ فضا میں
سگریٹوں کا ہر طرف پھیلا دھواں
ٹوٹی ہوئی میزوں کی درزوں میں
پناہیں ڈھونڈتی سرگوشیاں
راز و نیازِ زندگی
حالات کی ماری سسکتی مفلسی
فردا سے بے پرواہ دن بھر کی تھکن
محرومیاں، ایماں شکن
مجبوریوں کی گلتی سڑتی میتوں پر
ٹوٹتی نازک امیدوں کے کفن
پھر داؤ پر لگنے سے ڈرتی عزتیں
یا قرض کی سُولی پہ مرتی عزتیں
بیتے ہوئے دن کا عذابِ زندگی
ہر روز رہ جاتا ادھورا ایک بابِ زندگی
چائے کے ان گندے کپوں میں چھوڑ کر
ہر شخص جب گھر جائے گا
تو چڑچڑاتی چارپائیوں پر پڑے
میلے کچیلے بستروں پر
بھوکے جسموں پر گراں کچھ بوجھ کو
بدبو کے بھبکوں میں گرا کر
اک نئی شب کے لیے
پھر بدنصیبی کے تعفن کی رداء
اوڑھے گا اور مر جائے گا !

سالکؔ صدیقی


 جملہ حقوق محفوظ ہیں 


مکمل تحریر >>