Pages

Monday, August 19, 2013

26 October, 2012

خود کلامی بھی گناہ

رات گئے جب
سب آوازیں بند ہوئیں
اور چاند کہیں آغوش مغرب میں اترا
سوچا، کچھ اپنے آپ سے باتیں کی جائیں
لب بستہ، آنکھیں بند کیے
بس دل پر ذرا توجہ کی
سناٹا چیخ پڑا
اوپاگل، او گستاخ
جا کر سو جا
ہمیں تو بے آرام نہ کر!
مکمل تحریر >>

22 November, 2013


تازہ بہ تازہ ۔ ۔ ۔ محترمہ Riffat Murtaza کی ٹائم لائن تصویر دیکھ کر ایک خصوصی کیفیت میں لکھی گئی ۔ ۔ ۔

دور تک پھیلا
گذرتے وقت کا نیلا سمندر
آخر شب
اُف، کہیں نہ ٹھہرتی تنہائیوں کے دائرے
سوچ کی بے سمت لہریں
لمحہ لمحہ رینگتے
خاموش ساگر میں اترنا چاہتی ہیں
اور تشنہ خواہشوں کے ساحلوں پر
خوش گمانی کی ہواؤں کے جلو میں
ہر طرف کھُل کر بکھرنا چاہتی ہیں
آسماں کا آخری روشن ستارہ
صبح کاذب سے خفا
میری پلک پر آ کھڑا ہے
دور تک پھیلا سمندر
سوچ کی لہریں
ستارہ
جانے یہ سب راز کیا ہے!
مکمل تحریر >>

27-11-2012


جدید اقدار کے دھارے میں
کیوں نہ میں بھی بہہ جاؤں
وگرنہ صبح مرنا، شام جینا
لمحہ لمحہ بے بسی کا زہر پینا
آخری سانسوں تلک
چپ چاپ سہہ جاؤں
مکمل تحریر >>

04 December, 2012


محبت! ۔ تم کہاں ہو
عمر بھی کی تشنگی
اب تم سے ہم آغوش ہونا چاھتی ہے
شرابِ وصل پی کر، زندگانی
ہوش کھونا چاھتی ہے
حقوق محفوظ ہیں
مکمل تحریر >>

30 December, 2013


عمر تو
سات ہو
یا ستاون
کوئی فرق نہیں پڑتا
یوں نقطوں اور لکیروں میں
حیرت سے گم ہو جانا
انہونی کا کھوج لگانے کی کوشش میں
گہری سوچ کی چوکھٹ پر
بیٹھے بیٹھے سو جانا
بے معنی سا کھیل نہیں
یہ ایک طویل سفر ہے
اندر کی دنیا کا
تم کیا جانو!
مکمل تحریر >>

23 january 2013


کچے رستے پہ دور تک اب بھی
دھند پھیلی ہے بے یقینی کی
جانے کس کی تلاش میں گرداں
اک مسافر کہ بے سر و ساماں
خوش گمانی کی شال میں لپٹا
ایک موہوم سی امید لیے
چلتا جاتا ہے اور سوچتا ہے
دھند کے پار کیا کوئی اب بھی
تازہ نیلا گلاب تھامے ہوئے
شوق سے میرا منتظر ہو گا ؟
مکمل تحریر >>

11 February, 2013


جانے کس جھوٹ کی سزا ہے مجھے
سچ کی سُولی چڑھا دیا ہے مجھے

ہر قدم پر ہے جنگ کا میداں
اور خود سے بھڑا دیا ہے مجھے

قفلِ خاموشی دینے والے نے
کتنا منہ پھٹ بنا دیا ہے مجھے

آبگینے بھی میرے سنگ، رقصاں
ساقیا، کیا پلا دیا ہے مجھے

دل محبت سے آشنا کر کے
جینا تنہائی کا دیا ہے مجھے

لوحِ تقدیر لکھ کے کاتب نے
سوچتا بُت بنا دیا ہے مجھے

ممتحن مہربان ہے لیکن
پرچہ حد سے کڑا دیا ہے مجھے

گو توازن بھی سوچ میں ہے مگر
خون جو کھَولتا دیا ہے مجھے

صبر کے سائباں تلے سالک
سینہ پھٹتا ہوا دیا ہے مجھے
مکمل تحریر >>

15-03-2013


پرانے جوتوں کے ریشے ریشے پہ
جانے کتنی مسافتوں کی کتھا لکھی ہے
نہ جانے کن منزلوں کو پانے کی
بھیگے سجدوں میں مانگی اک اک دعا لکھی ہے
نہ جانے کیا سنگ میل تھے
جن کی گرد ان میں رچی ہوئی ہے
نہ جانے کتنے کڑے سفر تھے
کہ جن سے مجروح پاؤں پر
جم گئے لہو کی بساند استر میں رہ گئی ہے
مسافرِ بے تھکان کے جسم کے پسینے کا قطرہ قطرہ
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کی پیاس اب بھی بجھا رہا ہے
کہیں کوئی جیسے دشتِ امید سے پرے منتظر کھڑا ہے
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کو
نامکمل سفر کی تکمیل کا جنوں ہے
مسافرِ بے تھکان تو سرد مہر کیوں ہے؟
مکمل تحریر >>

Sunday, August 18, 2013

16 March, 2013


درد کے لمحات میں
چھپ چھپ کے اس کا دیکھنا،خاموش رہنا
اور پھر اشکوں کے ساون کی گھٹائیں
ٹوٹ کر، کھُل کر برس جانے کے بعد
پُشت پر آھستگی سے ہاتھ رکھ کر، صرف یہ کہنا
' چلو اٹھو، ذرا سی چہل قدمی سے طبیعت بہل جائے گی '
نہ جانے کیوں ہمیشہ حوصلہ دیتا رہا ہے
کیا ہوا جو آج کل وہ بے وجہ روٹھا ہوا ہے
درد کے لمحات پر بھی قحط سا اترا ہوا ہے !
مکمل تحریر >>

18 March, 2013


دن گذر جاتا ہے سو کاموں میں
رات بھر رات نہیں ہوتی ہے

ایسی تنہائی کہ توبہ، سالک
خود سے بھی بات نہیں ہوتی ہے
مکمل تحریر >>