درد کے لمحات میں
چھپ چھپ کے اس کا دیکھنا،خاموش رہنا
اور پھر اشکوں کے ساون کی گھٹائیں
ٹوٹ کر، کھُل کر برس جانے کے بعد
پُشت پر آھستگی سے ہاتھ رکھ کر، صرف یہ کہنا
' چلو اٹھو، ذرا سی چہل قدمی سے طبیعت بہل جائے گی '
نہ جانے کیوں ہمیشہ حوصلہ دیتا رہا ہے
کیا ہوا جو آج کل وہ بے وجہ روٹھا ہوا ہے
درد کے لمحات پر بھی قحط سا اترا ہوا ہے !
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔