کچے رستے پہ دور تک اب بھی
دھند پھیلی ہے بے یقینی کی
جانے کس کی تلاش میں گرداں
اک مسافر کہ بے سر و ساماں
خوش گمانی کی شال میں لپٹا
ایک موہوم سی امید لیے
چلتا جاتا ہے اور سوچتا ہے
دھند کے پار کیا کوئی اب بھی
تازہ نیلا گلاب تھامے ہوئے
شوق سے میرا منتظر ہو گا ؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔