پرانے جوتوں کے ریشے ریشے پہ
جانے کتنی مسافتوں کی کتھا لکھی ہے
نہ جانے کن منزلوں کو پانے کی
بھیگے سجدوں میں مانگی اک اک دعا لکھی ہے
نہ جانے کیا سنگ میل تھے
جن کی گرد ان میں رچی ہوئی ہے
نہ جانے کتنے کڑے سفر تھے
کہ جن سے مجروح پاؤں پر
جم گئے لہو کی بساند استر میں رہ گئی ہے
مسافرِ بے تھکان کے جسم کے پسینے کا قطرہ قطرہ
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کی پیاس اب بھی بجھا رہا ہے
کہیں کوئی جیسے دشتِ امید سے پرے منتظر کھڑا ہے
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کو
نامکمل سفر کی تکمیل کا جنوں ہے
مسافرِ بے تھکان تو سرد مہر کیوں ہے؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔