Pages

Monday, August 19, 2013

15-03-2013


پرانے جوتوں کے ریشے ریشے پہ
جانے کتنی مسافتوں کی کتھا لکھی ہے
نہ جانے کن منزلوں کو پانے کی
بھیگے سجدوں میں مانگی اک اک دعا لکھی ہے
نہ جانے کیا سنگ میل تھے
جن کی گرد ان میں رچی ہوئی ہے
نہ جانے کتنے کڑے سفر تھے
کہ جن سے مجروح پاؤں پر
جم گئے لہو کی بساند استر میں رہ گئی ہے
مسافرِ بے تھکان کے جسم کے پسینے کا قطرہ قطرہ
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کی پیاس اب بھی بجھا رہا ہے
کہیں کوئی جیسے دشتِ امید سے پرے منتظر کھڑا ہے
پرانے جوتوں کے ریشے ریشے کو
نامکمل سفر کی تکمیل کا جنوں ہے
مسافرِ بے تھکان تو سرد مہر کیوں ہے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔